مجیب: ابو احمد محمد انس رضا عطاری
مصدق: مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: Lar-12658
تاریخ اجراء: 01شعبان المعظم1445ھ/12
فروری 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ لبرل لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض
ہے کہ مولویوں کو جدید ٹیکنالوجی کے متعلق کچھ پتہ نہیں
،ان کا تعلیمی درس نظامی
نصاب کئی صدیوں پرانا ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
درس
نظامی نصاب کئی صدیوں پرانا ہونے کا یہ مطلب نہیں
کہ وہ غیر ضروری ہے ، بلکہ یہ
تودلیل ہے کہ وہ مفید نصاب ہے ،اس لیے اتنے عرصے سے رائج
ہے۔اگر یہ اصول بنایا جائے کہ جو بھی نصاب پرانا ہوجائے ،
وہ کارآمد نہیں تو دنیاوی بھی کثیر علوم ایسے
ہیں جن کا نصاب بہت پرانا ہے۔
لبرل لوگ یہ بتائیں کہ درس نظامی میں
دینی کتب چھوڑ کر کیا پڑھایا جائے؟ اگر لبرل کہیں
کہ انجینئرنگ پڑھائی جائے تو ڈاکٹر اعتراض کریں گے کہ
ڈاکٹری پڑھائی جائے،پھر وکلاء بھی کہیں گے کہ یہ
بھی پڑھائیں،یوں تو سارے ہی علوم پڑھانے پڑیں گے
۔بالفرض محال یہ بھی کیا جائے تب بھی سیکولر
و لبرل علماء سے خوش نہ ہوں گے کہ ان کا اصل مسئلہ دنیاوی
تعلیم نہیں بلکہ دین ہے۔یہ چاہتےہیں کہ لوگ
دین وعلماء سے دور ہوجائیں۔ لبرل لوگوں نے یہ کبھی
نہیں کہا کہ وکلاء کو ڈاکٹری بھی پڑھنی چاہیے اور
ڈاکٹر حضرات کو انجینئرنگ بھی پڑھنی چاہیے ۔اب تو
ایک علم کے اندر بھی کئی کئی موضوعات پر
اسپیشلائزیشن کی جاتی ہے اور اس پر فخر کیا جاتا ہے،لیکن
خالص دینی تعلیم پر اعتراض کرکے اس کو مربہ بنانے کی کوشش
کی جاتی ہے کہ نہ صحیح طرح دین آئے اور نہ
دنیا۔
درس نظامی کا نصاب درحقیقت عالِم
بنانے پر مشتمل ہے جس طرح دیگر شعبہ جات میں پروفیشنل لوگوں کا
نصاب ہوتا ہے۔ایک عالم کے لیے ضروری ہے کہ اسے قرآن
،تفسیر،حدیث،فقہ اور عربی گرائمرسمیت دیگر
دینی علوم کا علم ہو ، تاکہ وہ مسلمانوں کی صحیح طرح
رہنمائی کرسکے ، کیونکہ تمام مسلمان عالم بن جائیں ایسا
ممکن نہیں جس طرح تمام لوگ ڈاکٹر و انجینئر نہیں بن سکتے۔
علمائے کرام نے موجودہ دور میں جن
دنیاوی علو م کی ضرورت و اہمیت ہے اس کو اپنے درس
نظامی نصاب میں ضمنی طور پر شامل کیا ہے،اس کے برعکس
دنیاوی تعلیمی نصاب میں دینی نصاب اب ضمنی بھی
نہیں رہا ، بلکہ تقریباً ختم ہی کردیا گیا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ بی اے بلکہ ایم اے پاس شخص کو
بھی وضو ،نمازاور دیگر فرض
عبادات کے اہم مسائل نہیں آتے۔
قرآن
پاک میں ہے:﴿ وَمَا کَانَ
الْمُؤْمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً
ؕ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ
طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی
الدِّیۡنِ وَلِیُنۡذِرُوۡا قَوْمَہُمْ اِذَا
رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمْ لَعَلَّہُمْ
یَحْذَرُوۡنَ ﴾ترجمہ
کنزالایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں
تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین
کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس
امید پر کہ وہ بچیں۔(سورۃ
التوبۃ،سورت9،آیت122)
اس
آیت کے تحت صراط الجنا ن میں
ہے:”{ وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوۡنَ:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں
سکتا۔} یعنی علم حاصل کرنے کے لئے سب مسلمانوں کا اپنے وطن سے
نکل جانا درست نہیں کہ اس طرح شدید حَرج ہوگا ، توجب سارے نہیں
جاسکتے تو ہر بڑی جماعت سے ایک چھوٹی جماعت جس کا نکلنا انہیں
کافی ہو ، کیوں نہیں نکل جاتی ؟تاکہ وہ دین میں
فقاہت حاصل کریں اورا س کے حصول میں مشقتیں جھیلیں
اور اس سے ان کا مقصود واپس آ کر اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کرنا
ہو ، تاکہ ان کی قوم کے لوگ اس چیز سے بچیں جس سے بچنا انہیں
ضروری ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُمَاسے
مروی ہے کہ قبائلِ عرب میں سے ہر ہر قبیلہ سے جماعتیں
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں اور وہ حضور
پُرنور صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے دین کے مسائل سیکھتے اور فقاہت حاصل کرتے
اور اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے احکام دریافت کرتے۔ حضورِ
اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ انہیں
اللہ عَزَّوَجَلَّ اور رسول صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی فرماں برداری کا حکم دیتے اور نماز
زکوٰۃ وغیرہ کی تعلیم کے لئے انہیں اُن کی
قوم پر مامور فرماتے۔ جب وہ لوگ اپنی قوم میں پہنچتے تو اعلان
کردیتے کہ جو اسلام لائے وہ ہم میں سے ہے اور لوگوں کو خدا عَزَّوَجَلَّ کا
خوف دلاتے اور دین کی مخالفت سے ڈراتے ۔
یہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا
معجزۂ عظیمہ ہے کہ بالکل بے پڑھے لوگوں کو بہت تھوڑے عرصے میں
دین کے اَحکام کا عالم اور قوم کا ہادی بنادیا ۔“(صراط الجنان،جلد4،صفحہ265،مکتبۃ المدینہ
،کراچی)
فتاوی امجدیہ میں صدرالشریعہ
مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
: ’’عالم ہونے کے لئے بہت سی کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہے اور صرف
بہت کتابیں نہیں ، بلکہ بہت علوم و فنون پڑھنے کی حاجت ہے
۔حدیث ،فقہ ،تفسیر ،اصول فقہ ،اصول حدیث اور ان کے مبادی
و مقدمات ۔‘‘(فتاوی امجدیہ، جلد 2، حصہ4، صفحہ98، مکتبہ رضویہ،
کراچی )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟