Big Bang Theory Kya Hai? Iski Shari Hesiyat

(Big  Bang Theory)کیا ہے،اور اس کی   شرعی حیثیت کیا ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-466

تاریخ اجراء:02محرم الحرام1445ھ/09 جولائی2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بِگ بینگ تھیوری(Big Bang Theory)کیا ہے،اور اس کی   شرعی حیثیت کیا ہے؟نیز  بعض اسکولوں میں یہ نصاب کا حصہ ہوتی ہے،طلبا کو پڑھائی جاتی ہے،ایسی صورت میں اس پر یقین رکھے بغیر صرف اس کو پڑھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمانوں کا  عقیدہ یہ ہے کہ زمین و آسمان  اور جو کچھ اس میں ہے،  اس کے پیچھے  ایک صانع یعنی بنانے والا موجود ہے،جو عظیم  طاقت اور قدرت کا  مالک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے، اسی نے سب کو   پیدا کیا ہے اور اس نے   آسمان و زمین کی تخلیق  ایک مخصوص مدت  اور ترتیب سے فرمائی۔

   بگ بینگ تھیوری(Big Bang Theory)،کائنات کی پیدائش کے بارے میں پیش کیا جانے والا ایک سائنسی خیال اورنظریہ ہے،جس کے معنی ایک بڑے دھماکے کے ہیں،اس کے مطابق آج کے دور سے تقریبا 14ارب سال پہلے،جب کائنات کا سارا مادہ ایک نقطے میں بند تھا، ایک عظیم الشان دھماکا ہوا ،جس سے یہ مادہ پھیلنا شروع ہوا اور مختلف کہکشائیں،ستارے ،سیارے اور زمین و آسمان  وجود میں آئے۔ اس  سائنسی نظریہ کی بنیاد پر  دہریے لوگ   اللہ عزوجل کے وجود کا انکار  کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنا ت یک دم   خود بخود وجود میں آگئی ،اس کو   کسی ہستی نے پیدا نہیں کیا لیکن بِگ بینگ ہو ایا نہیں، بہر صورت اس سے خالق کے وجود کا انکار عجیب جہالت اور خلاف ِ عقل چیز ہے کہ بالفرض وہ دھماکا ہوا ہی ہو، تو یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ یہ دھماکا کسی ہستی نے اپنی  حکمت و علم سے نہیں کیا؟ دونوں کا آپس میں ربط ہی کوئی نہیں۔دنیا بھر میں متعدد ممالک ایٹمی دھماکے کرتے ہیں تو کیا وہ اس کا ثبوت ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی فاعل نہیں، کوئی کرنے والا نہیں؟ہرگز ایسا نہیں۔ تو دھماکا ہونا فاعل کے وجود کی نفی کسی بھی صورت نہیں ہے۔  

   بہرحال  جہاں تک طلباکے   اس تھیوری کو  اسکولوں میں بطور نصاب پڑھنے کی بات ہے،تو  صرف  اس طور پر پڑھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی اسلامی نظریہ نہیں، بلکہ سائنسی خیال ہے، جو ثابت بھی نہیں،جیسے:ہم نے بھی اوپر بگ بینگ کا معنیٰ بیان کیا ہے۔ باقی اس سے خالق کے وجود کا انکار کرنا قطعی کفر ہے، جس سے بچنا فرض عین ہے۔

   قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِترجمۂ  کنز العرفان:’’بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا۔‘‘(القرآن،پارہ8،سورۃالاعراف،آیت54)

   مذکورہ آیت کی تفسیر میں صراط الجنان میں ہے:’’یہاں سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت، قدرت، وحدانیت اوروقوعِ قیامت پر دلائل دئیے گئے ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قدرت و وحدانیت کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور چھ دن میں پیدا کیا جیسا کہ اِس آیت میں اور دیگر آیات میں فرمایا گیا۔‘‘(تفسیر صراط الجنان،جلد3،صفحہ338،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   البتہ زمین و آسمان کے ملے ہونے سے متعلق قرآن مجید میں ایک آیت ہے، فرمایا:﴿اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَاترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے، تو ہم نے انہیں کھول دیا۔(القرآن،پارہ17،سورۃالانبیاء،آیت30)

   اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ  یہاں ملے ہونے سے مراد  یہ ہے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے،تو اللہ عزوجل نے انہیں جدا کرکے کھول دیا،چنانچہ تفسیر طبری میں ہے:’’عن ابن عباس، قوله﴿اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا... الآية، يقول:كانتا ملتصقتين، فرفع السماء ووضع الأرض... كان الحسن وقتادة يقولان: كانتا جميعا، ففصل اللہ بينهما بهذا الهواء‘‘ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ  عنہ  سے مروی ہے،آپ فرماتے ہیں کہ  اللہ عزوجل کا  فرمان:’’کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے،تو ہم نے انہیں کھول دیا‘‘یعنی  زمین و آسمان ملے ہوئے تھے،تو  اللہ عزوجل  نے آسمان کو اوپر اٹھالیا اور زمین کو  بچھا دیا۔۔۔حضرت حسن اور قتادہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آسمان و زمین دونوں ایک ساتھ تھے، تو اللہ عزوجل  نے ان دونوں  کو ہوا سے جدا کردیا۔(تفسیر طبری،جلد18،صفحہ431، مؤسسة الرسالة، بیروت)

   لیکن آیت میں بیان کردہ چیزسائنس دانوں والا بگ بینگ ہے یا کچھ اور، یہ معلوم نہیں۔ انکارِ خالق والا بگ بینگ تو قطعا نہیں۔ بقیہ کا احوال خدا جانے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم