عذابِ قبر کے منکر کا حکم |
مجیب:مولاناعبدالرب شاکرصاحب زید مجدہ |
مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:sar:6314 |
تاریخ اجراء:01محرم الحرام1440ھ/12ستمبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جوشخص کلمہ گومسلمان ہو،لیکن عذاب ِ قبرکامنکرہو،تواس کے بارے میں شرعاً کیاحکم ہے؟کیاعذاب ِ قبرکاثبوت قرآن وسنت میں موجودہے؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
عذاب قبر برحق ہے،جس کاانکارکرنے والابدعتی اورگمراہ ہے۔عذابِ قبرکےثبوت پربہت سی آیاتِ قرآنیہ واحادیث نبویہ شاہدہیں،جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں۔ اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے : ﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚوَ یَوْمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟اَدْخِلُوۡۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ترجمۂ کنزالایمان:آ گ جس پر ( وہ ) صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی ، حکم ہوگا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔(القرآن،پارہ 24،سورة المومن،آیت46) مذکورہ بالاآیت کریمہ کی تفسیرمیں امام فخرالدین رازی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:”احتج أصحابنا بھذہ الآیة علی اثبات عذاب القبر“ترجمہ:اس آیت سے ہمارے علماء نے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ (التفسیر الکبیر،ج27،ص521،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت) اسی آیت کے تحت شیخ القرآن ابوالصالح مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”اس آیت سے عذابِِ قبرکے ثبوت پراستدلال کیاجاتاہے ،کیونکہ یہاں پہلے صبح وشام فرعونیوں کوآگ پرپیش کیے جانے کاذکرہوا اوراس کے بعدقیامت کے دن سخت ترعذاب میں داخل کیے جانے کابیان ہوا،اس سے معلوم ہواکہ قیامت سے پہلے بھی انہیں آگ پرپیش کرکے عذاب دیاجارہاہے اوریہی قبرکاعذاب ہے۔کثیراحادیث سے بھی قبرکاعذاب برحق ہوناثابت ہے۔“(تفسیرصراط الجنان،ج08،ص570، مکتبۃ المدینہ،کراچی) صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے:” أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ان أحدكم اذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي ان كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة وان كان من أهل النار فمن أهل النار فيقال: هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب تم میں سے کوئی مرجاتاہے ، توصبح وشام اس پراس کامقام پیش کیاجاتاہے۔جتنی پرجنت کااوردوزخی پردوزخ کا اوراسے کہاجاتاہے کہ یہ تمہارا ٹھکانہ ہے ،یہاں تک کہ اللہ قیامت کے دن تمہیں اٹھائے گا۔(صحیح البخاری ،کتاب الجنائز،باب المیت یعرض علیہ مقعدہ،ج01،ص184،مطبوعہ کراچی ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”أتدرون فیما أنزلت ھذہ الآیة ﴿فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی﴾أتدرون ما المعیشة الضنکة؟ قالوا:اللہ ورسولہ أعلم قال: عذاب الکافر فی قبرہ“ترجمہ:کیا تم جانتے ہو کہ یہ آیت﴿فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی﴾کس چیز کے بارے میں نازل ہوئی اور”تنگ زندگانی“ کیا ہے ؟صحابہ نے عرض نے کیا :اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں،تو نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نےارشادفرمایا:اس سے قبر میں کافر کو دیا جانے والا عذاب مراد ہے۔(صحیح ابن حبان،کتاب الجنائز ،فصل فی احوال المیت،حدیث3119،جلد7،صفحہ388،موسسة الرسالة ،بیروت) صحیح بخاری ،صحیح مسلم،سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ،سنن نسائی،سنن الکبری،صحیح ابن خزیمہ،صحیح ابن حبان،مصنف ابن ابی شیبہ،مصنف عبدالرزاق،مسندابی عوانہ،،مسنداحمد،مسنداسحاق،مسندابی یعلی وغیرہم میں ہے:واللفظ للاول”مر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقبرین فقال انھما یعذبان وما یعذبان فی کبیر اما احدھما فکان لایستنزہ من البول واما الاخر فکان یمشی بالنمیمة ثم اخذ جریدة رطبة فشقھا بنصفین ثم غرز فی کل قبر واحدة وقال لعلہ ان یخفف عنھما مالم ییبسا“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے،تو فرمایا:ان دونوں شخصوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اورکسی دشوار بات پر عذاب نہیں ہو رہا ،ان میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتاتھااوردوسراچغلی کیاکرتا تھا ، پھرایک تر شاخ کولےکر اس کو آدھاآدھا کر کےدونوں قبروں پر ایک ایک کو لگا دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹکرے خشک نہ ہوں گے،ان دونوں شخصوں سے عذاب میں کمی کی جائے گی۔ (صحیح بخاری، کتاب الوضو،باب ماجاء فی غسل البول،ج1،ص611، مطبوعہ کراچی ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عذاب قبر کے بارے دریافت کیا،تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”نعم عذاب القبر حق“ترجمہ:ہاں ؛عذاب قبر حق ہے۔(سنن النسائی،کتاب السھو،رقم حدیث1308،ج3،ص56،مکتبة المطبوعات الاسلامیة،حلب) منکرِعذابِِ قبرکے حکم کے بارے میں المسامرة شرح المسایرة میں ہے:”والاحادیث فی ھذا الباب کثیرة تبلغ حد الاشتھار وانکار الخبر المشھور بدعة وضلالة“ترجمہ:عذاب قبر سے متعلق کثیر احادیث وارد ہیں،جو حدِشہرت کو پہنچی ہوئی ہیں اور خبر مشہورکا انکار بدعت و گمراہی ہے۔ (المسامرة شرح المسایرة،الرکن الرابع فی السمعیات،الاصل الثانی والثالث،صفحہ223،دار الکتب العلمیة ،بیروت) صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”عذاب و تنعیم ِ قبر کا انکار وہی کرے گا ، جو گمراہ ہے۔“ (بہار شریعت،ج01،ص113،مطوعہ مکتبة المدینہ ،کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟