Allah Pak Par Lafz e Cheez Ka Itlaq Karna Kaisa ?

اللہ تعالی پر لفظِ"چیز"کا اطلاق کرنا کیسا؟

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2389

تاریخ اجراء: 11رجب المرجب1445 ھ/23جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اللہ پاک چیز ہے ایسا کہنا کیسا اور اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو اس پر کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اللہ تعالٰی پر لفظِ چیز اور شے  کا اطلاق درست  وجائزہے، اس پر قرآن کریم  اور ائمہ  و فقہاء کے درج ذیل  اقوال دلیل ہیں ۔

   ارشاد باری تعالٰی ہے﴿ قُلْ اَیُّ شَیْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً  ؕ-قُلِ اللّٰهُ- شَهِیْدٌۢ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ ﴾ترجمہ: تم فرماؤ سب سے بڑی گواہی کس کی تم فرماؤ کہ اللہ گواہ ہے مجھ میں اور تم میں۔(سورۃ الانعام،آیت 19)

   امام  اہل سنت امام  ابو منصور الماتریدی رحمہ اللہ   تفسیر تأویلات اہل السنۃ میں لکھتے ہیں:”وفی قولہ  تعالٰی (قل أی شیء) دلالۃ أنہ یقال لہ شیء، لانہ لو لم یجز أن یقال لہ شیء لم یستثن الشیء منہ“ ترجمہ: اللہ تعالٰی کے فرمان (قل أی شیء) میں اس بات پر دلیل ہے کہ اسے شے کہا جا سکتا ہے ، اس لیے کہ اگر اسے شے  کہنا جائز نہیں ہوتا ، تو شے سے اس کا استثناء نہ کیا جاتا۔(تفسیر الماتریدی،ج4،ص39،دار الکتب العلمیۃ)

   اور امام رازی رحمہ اللہ تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:” واحتج الجمهور على تسمية الله تعالى بالشيء بهذه الآية وتقريره أنه قال أي الأشياء أكبر شهادة ثم ذكر في الجواب عن هذا السؤال قوله قل الله وهذا يوجب كونه تعالى شيئا، كما أنه لو قال:أي الناس أصدق فلو قيل: جبريل، كان هذا الجواب خطأ لأن جبريل ليس من الناس فكذا هاهنا۔۔۔۔۔وفي المسألة دليل آخر وهو قوله تعالى: كل شيء هالك إلا وجهه [القصص: 88] والمراد بوجهه ذاته، فهذا يدل على أنه تعالى استثنى ذات نفسه من قوله كل شيء والمستثنى يجب أن يكون داخلا تحت المستثنى منه، فهذا يدل على أنه تعالى يسمى باسم الشيء۔۔۔۔۔۔۔فنقول: لفظ الشيء أعم الألفاظ، ومتى صدق الخاص صدق العام، فمتى صدق فيه كونه ذاتا وحقيقة وجب أن يصدق عليه كونه شيئا وذلك هو المطلوب والله أعلم“ ترجمہ : اور جمہور  نے اللہ تعالٰی پر لفظ شے کے اطلاق   کےجواز پر اس آیت سے استدلال کیا ہے، اس کی تشریح یہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”کون سی شے شہادت میں بڑی ہے“ پھر اس سوال کا جواب ذکر کیا”کہو اللہ“  اور یہ اس بات کو لازم کرتا ہے کہ اللہ شے ہے، جیسے اگر کوئی کہے ”لوگوں میں سب سے زیادہ سچا کون ہے؟“  اگر یہ جواب دیا جائے کہ ”جبریل“  یہ جواب غلط ہوگا، کہ جبریل لوگوں میں داخل نہیں ،اسی طرح یہاں ہے۔۔۔۔۔تو اس آیت سے بھی اللہ تعالٰی کو شے بولنے پر استدلال  کرنا درست ہے۔۔۔۔۔اس مسئلہ پر ایک اور دلیل بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”ہر شے ہلاک ہوجائے گی سوائے اس کے وجھ کہ“ وجھ سے مراد اس کی ذات ہے، تویہ اس بات پر  دلیل ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کا استثناء  اپنے قول ”کل شیء“ سے کیا ہے اور مستثنیٰ  میں ضروری ہے کہ وہ مستثنٰی منہ میں داخل ہو، تو یہ اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسم شے  سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔تو ہم کہتے ہیں لفظ شے سب سے عام الفاظ میں سے ہے،اور جب خاص صادق آتا ہے تو عام بھی آتا ہے،  تو جب اللہ تعالٰی   کے متعلق یہ صادق آیا کہ وہ ذات اور حقیقت ہے تو لازم ہے کہ اس پر شے کا ہونا بھی صادق آئے، اور یہی مطلوب ہے، واللہ اعلم۔(تفسير الرازي ،التفسير الكبير ،ج12،ص498، 499، دار احیاء التراث العربی)

   پھر امام الائمہ سراج الامہ امام ِ اعظم رضی اللہ عنہ سے بھی اللہ تعالٰی کےلیے لفظِ شے کا اطلاق منقول ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ فقہ الاکبر میں فرماتےہیں:”وھو شیء لا کالاشیاء“ ترجمہ: وہ شے ہے لیکن اور اشیاء  کی طرح نہیں۔

   اس کی شرح میں علامہ علی قاری فرماتے ہیں :”ھذا فذلکۃ الکلام و مجملۃ المرام، فانہ سبحانہ شیء أی موجود  بذاتہ وصفاتہ الا انہ لیس کالأشیاء المخلوقۃ ذاتاً و صفۃً“ ترجمہ: یہ  منتہائے کلام ہے کہ اللہ تعالیٰ شے ہے یعنی اپنی ذات و صفات کے ساتھ موجود ہے   لیکن ذات و صفات میں اشیائے مخلوقہ کی طرح نہیں۔(شرح الفقہ الاکبر،صفحہ117،دار البشائر الاسلامیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم