مجیب: مفتی ا بو محمد علی اصغر عطاری
فتوی
نمبر: Faj-6822
تاریخ اجراء: 30ربیع الاول 1443 ھ/06نومبر 2021ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا اللہ تعالی کے لیے لفظ
(خالقوں کا خالق) کہہ سکتے ہیں ، اس لفظ میں بندوں کو بھی خالق
کہا گیا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
”خالق“اللہ تبارک وتعالی کے
ان ناموں میں سے ہے ،جو رب
تعالی کے ساتھ ہی خاص ہیں ،
بندوں کو خالق کہنا جائز نہیں ۔ لفظ (خالقوں
کا خالق) میں چونکہ بندوں کو بھی خالق کہا جارہا ہے ،جوکہ
جائز نہیں، لہذا اللہ تبارک وتعالی کے لیے مذکورہ لفظ استعمال نہیں کرسکتے۔
’’خالق
‘‘اللہ تبارک وتعالی کے اسمائے مبارکہ میں سے ہے، قرآن پاک میں
ہے ﴿هُوَ
اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ
الْحُسْنٰى ؕ﴾وہی ہے اللہ بنانے والا،
پیدا کرنے والا ،ہر ایک کو صورت دینے والا، اسی کے
ہیں سب اچھے نام۔ ( سورہ حشر، آیت59)
’’خالق‘‘اللہ
تبارک وتعالی کے اسمائے مختصہ میں سے ہے ، تفسیر طبری
میں ہے :” وكان للہ جل ذكره اسماء
قد حرم على خلقه ان يتسموا بها، خص بها نفسه دونهم، وذلك مثل اللہ والرحمن و
الخالق “ یعنی
کچھ نام اللہ تعالی کے ساتھ ایسے خاص ہیں کہ مخلوق کے لیے
وہ نام رکھنا حرام ہیں ،وہ اللہ تبارک وتعالی نے اپنے لیے خاص
فرمائے ہیں، جیسے اللہ ، رحمٰن، خالق۔(تفسیر
الطبری ، جلد1، تأویل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ، صفحہ
132، مطبوعہ دار ھجر)
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :”ولھذا
چنانکہ اطلاق باری و خالق بر غیر اوسبحنہ نیست اطلاق قیوم
نیز نتواں شد “یعنی جس طرح اللہ تبارک
وتعالی کی ذات کے علاوہ مخلوق پر لفظ باری اور لفظ خالق کا
اطلاق نہیں ہوسکتا، اسی طرح قیوم کا اطلاق بھی نہیں
ہوسکتا ۔ ‘‘ (فتاوی
رضویہ، جلد13، صفحہ 567، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہار
شریعت میں ہے :” عبداللہ اور
عبدالرحمٰن بہت اچھے نام ہیں ، مگر اس زمانہ میں یہ اکثر دیکھا
جاتا ہے کہ بجائے عبدالرحمٰن اوس شخص کو بہت سے لوگ رحمٰن کہتے
ہیں اور غیر خدا کو رحمٰن کہنا حرام ہے ، اسی طرح
عبدالخالق کو خالق اور عبدالمعبود کو معبود کہتے ہیں ، اس قسم کے ناموں میں
ایسی ناجائز ترمیم ہرگز نہ کی جائے ۔“(بھارشریعت،
جلد3، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
واضح
رہے قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ ﴿فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ
الْخٰلِقِیْنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان:’’ تو
بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا ہے) میں جو بندوں پر خالق کا اطلاق کیا گیا
ہے ، وہ صانع(Maker)
یعنی بنانے والے یا مقدِّر (Estimater)یعنی اندازہ کرنے والے معنی
میں ہے نہ کہ پیدا کرنے والےمعنی میں۔ پیدا
کرنے والامعنی ،تو اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ خاص ہے، چونکہ اس وقت اہل
عرب لفظ خالق کو صانع (Maker) وغیرہ کے معنی
میں بھی استعمال کرتے تھے ، اس لیے قرآن پاک میں بھی اطلاق کیا گیا ،
لیکن اب ہر شخص جانتا ہے کہ ہمارے یہاں لفظ خالق
کا استعمال صانع (Maker) وغیرہ کے معنی
میں نہیں ہوتا، بلکہ پیدا
کرنے والے معنی میں ہی استعمال ہوتاہے جو رب تعالی کے ساتھ
خاص ہے ، لہذا مخلوق پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔
جلالین
کی اس عبارت (فتبارک اللہ احسن الخالقین
ای المقدرین) کے تحت تفسیر
صاوی میں ہے :”ای المصورین
ودفع بذلک ما یقال ان اسم التفضیل یقتضی المشارکۃ مع
انہ لا خالق غیرہ فاجاب بان المراد بالخلق
التقدیر لا الایجاد والابداع والتقدیر حاصل من الحوادثات “ یعنی مقدرین معنی ہے بنانے والے اور اس لفظ سے اس اعتراض کو دفع کیا گیا ہے کہ
اسم تفضیل تو مشارکت کا تقاضہ کرتا ہے ،حالانکہ اللہ عزوجل کے علاوہ
کوئی خالق نہیں ، تو اس کا یہ جواب ہوا کہ یہاں خلق سے مراد تقدیر (Estimation)یعنی اندازہ کرنا ہے نہ
کہ پیدا کرنا اور عدم سے وجود میں لانا ، اندازہ والے معنی
حوادثات (بشر) میں بھی ہوسکتے ہیں ۔ (تفسیر
صاوی، جلد3، صفحہ 94، تحت آیت 14، سورہ مؤمنون)
امام
ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے
ہیں :”
ذکر احسن الخالقین لما ان العرب تسمی کل صانع شیء خالقا فخرج
الذکر لھم علی ما یسمونھم لیس علی حقیقۃ
الخلق لمن دونہ “ احسن الخالقین کا ذکر اس لیے ہوا کہ اہل
عرب کسی چیز کے بنانے والے کو
خالق کہتے ہیں، تو خالقین کا ذکر ان کے اس نام دینے کی
وجہ سے ہوا ،نہ اس لئے ہوا کہ حقیقتاً خلق اللہ عزوجل کے علاوہ کسی
اور کے لئے ثابت ہے ۔ (تفسیر
الماتریدی ، سورہ مؤمنون، آیت 14، جلد7، صفحہ457، بیروت)
خالقین
سے مراد صانعین ہے ، اس قول کی وجہ ترجیح بیان کرتے ہوئے
امام جریر طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے
ہیں:”واولی
القولین فی ذلک بالصواب قول مجاھد لان العرب تسمی کل صانع خالقاً
“ یعنی امام
مجاہد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا قول زیادہ درست ہے
،کیونکہ اہل عرب ہر صانع کو خالق کہتے ہیں ۔ (تفسیر طبری،سورہ مؤمنون، آیت 14، جلد
17،صفحہ25، مطبوعہ دار ھجر)
مرقاۃ
المفاتیح میں ہے :”(احسن الخالقین)
ای المصورین والمقدرین فانہ الخالق الحقیقی المنفرد
بالایجاد والامداد ، وغیرہ انما یوجد صورا مموھۃ
لیس فیھا شیء من حقیقۃ الخلق مع انہ تعالی
خالق کل صانع وصنعتہ واللہ خلقکم وما تعلمون“ترجمہ
:خالقین یعنی بنانے والے اور اندازہ کرنے والے کیونکہ اللہ
تعالی ہی حقیقی خالق ہے، جوکہ ایجاد اور امداد
میں منفرد ہے اور اللہ تعالی کے علاوہ تو صرف خیالی
تصاویر بناتے ہیں ، اس میں حقیقتاً کوئی خلق والا
معنی نہیں ، حالانکہ اللہ تبارک وتعالی ہرصانع اور اس کی
صنعت کو پیدا کرنے والا ہے ، اللہ تعالی تمہیں اور جو تم کرتے
ہو اس کو پیدا کرنے والا ہے ۔ (مرقاۃ
المفاتیح، جلد2، صفحہ495، مطبوعہ کوئٹہ)
تفسیر
نعیمی میں ہے :”فتبرک اللہ احسن
الخالقین یہاں خالقین
کو جمع فرمانا اسی لیے ہے کہ یہ خلق بمعنی
پیدا کرنا نہیں، ورنہ صریح شرک ہوگا ،بلکہ خلق بمعنی بنانا
یا اندازہ لگانا ہے۔(تفسیر
نعیمی ، جلد3، صفحہ 435، مکتبہ اسلامیہ)
مرأۃ
المناجیح میں ہے :”خالقین بمعنی مصورین ہے
یعنی تمام صورت بنانے والوں سے اچھی صورت بنانے والا رب ہے
۔۔۔بمعنی پیدا کرنا ، خدا تعالی ہی
کی صفت ہے، اس معنی سے خالق اس کے سوا کسی اور کو نہیں کہا جاسکتا ۔“(مرأۃ
المناجیح،جلد2، صفحہ37، حسن پبلشرز ،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟