مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Sar-7854
تاریخ اجراء:01ذو القعدۃ الحرام1443ھ/01جون 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے
میں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے’’
یَا مُسَخِّرَ
السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ‘‘ کے الفاظ بول سکتے ہیں اور کیا
’’ اَلْمُسَخِّرُ ‘‘اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام
ہے ، حدیث
پاک میں بیان کر دہ ننانوے ناموں میں تو یہ موجود
نہیں ہے ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسئلہ کا
حکم و تفصیل جاننے سے پہلے چند
اہم باتیں ذہن نشین کرلیجیے !
(1)اللہ
تعالیٰ کا ایک نام یعنی اسمِ جلالت”اللہ “ ذاتی ہے اور بقیہ
تمام نام صفاتی ہیں اور سب اسمائے الٰہیہ توقیفی ہیں ،لہٰذا اپنی
طرف سے اللہ کے لئے کوئی نام نہیں بول سکتے ،چاہے اس کے معنی درست ہی کیوں نہ
ہو ں ،جیسا کہ لفظِ ”معلِّم “ کہ اس کامعنی
اگرچہ درست ہے ، مگر اللہ پاک کےلیے معلِّم کا لفظ بولنا منع ہے ۔
(2)نیز
نناوے اسماء الحسنی والی حدیث میں اسمائے
الٰہیہ کی تعداد بیان
کر کے حصر (محدود ) کرنا مقصود نہیں ہے ، بلکہ حدیث پاک میں صرف اس بات کے
متعلق خبر دی گئی کہ جس نے
حدیث پاک میں بیان کردہ اِن ننانوے ناموں کو یاد کیا
، اس کے لیے جنت کی بشارت ہے
۔
(3)اِسی
وجہ سے علمائے کرام فرماتے ہیں ،
حدیث پاک میں صرف مخصوص نام بیان کیے گئے ہیں ،
ورنہ حدیث میں بیان کیے
گئے ناموں کے علاوہ اور بھی بہت سے معروف اسمائے
الٰہیہ ہیں ،
جیساکہ قرآن کریم میں ذکر ہوا”ذو القوۃ المتین “ ،” فعال لما یرید “،”ا حسن الخالقین “ وغیرہا ،
نیز اس کی دلیل وہ حدیث پاک بھی ہے جس میں
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان
الفاظ کے ساتھ دعا کی ’’ أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك ‘‘یعنی اے اللہ
! میں تجھ سے تیرے ہر اس نام
کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں ، جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے
۔
اب
نفسِ مسئلہ کا حکم ملاحظہ
کیجیے !
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ، صفتِ
تسخیر بھی ہے اور قرآن کریم میں اس صفتِ تسخیر کے متعلق بہت سی
آیاتِ مبارکہ وارد ہوئی ہیں ، نیز علمائے دین نے کئی مقامات پر اس صفتِ
تسخیر کا ذکر کیا اور اللہ
تعالیٰ کے لیے ” اَلْمُسَخِّرُ
“ کا صیغہ
بھی استعمال کیا ہے ،
لہٰذا ” اَلْمُسَخِّرُ “اللہ تعالیٰ
کا صفاتی نام ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو” یَا مُسَخِّرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ “وغیرہ کہنا بھی درست ہے کہ اللہ
تعالیٰ ہی آسمان و زمین ، بلکہ ہر چیز کو مسخر کرنے
والا ہے ، جیساکہ بعض علماء نے” مسخر القلوب “،” المسخر ما أحب“ وغیرہ کے الفاظ ذکر کیے ہیں ۔
اسمائے
الٰہیہ توقیفی
ہیں اور جو نام شریعت نے
بیان کر دئیے ، انہی
ناموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو
پکارنا ضروری ہے ، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿ وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى
فَادْعُوْهُ بِهَاوَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ
اَسْمَآىٕهٖ سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾
ترجمۂ کنزالعرفان : ’’ اور بہت اچھے نام اللہ ہی کے ہیں، تو اسے
ان ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے دور
ہوتے ہیں ، عنقریب اُنہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے
گا۔“(پارہ 9 ، سورۃ الاعراف ، آیت 180)
مذکورہ بالا
آیت ِمبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیر القرآن
میں ہے :”﴿ اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ
فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ﴾ (جو
اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔)اللہ تعالیٰ
کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ۔ ایک تو
یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا ،جیسا
کہ مشرکین نے اِلٰہ کا”لات“ اور عزیز کا” عُزّیٰ“ اور منان کا ” مَنات “ کرکے
اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز
ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے
ایسا نام مقرر کیا جائے ،جو قرآن و حدیث میں نہ آیا
ہو ،
یہ بھی جائز نہیں ، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء
تَوقِیفیہ ہیں۔“(صراط الجنان ،جلد3،صفحہ 481،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
جس
نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کو یاد کیا، اس کے
لیے جنت کی بشارت ہے ، جیساکہ حدیث پاک میں ہے : ”عن أبي هريرة رضي اللہ عنه: أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: إن لله
تسعة وتسعين اسما، مائة إلا واحدا، من أحصاها دخل الجنة“ ترجمہ : حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
و سلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ
تعالیٰ کے ننانوے یعنی ایک کم سو نام
ایسے ہیں ، جو اِن ناموں کو یاد کرے گا ،وہ جنت میں جائے گا ۔( صحیح البخاری،
کتاب الشروط، باب ما يجوز من الاشتراط والثنيا في الإقرار، جلد 1 ، صفحہ 486 ،
مطبوعہ لاھور)
ذکر کردہ
حدیث پاک کی شرح میں مفتی محمد احمد یار خان
نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں: اللہ پاک کے بہت سے نام ہیں جن میں
سے ایک نام ذاتی ہے،اللہ،باقی نام صفاتی۔حق
یہ ہے کہ اللہ پاک کے نام توقیفی ہیں کہ شریعت نے
جو بتائے اُن ہی ناموں سے پکارا جائے۔اپنی طرف سے نام
ایجاد نہ کیے جائیں ، اگرچہ ان کا ترجمہ صحیح ہو۔ “(مراٰۃ
المناجیح، جلد3، صفحہ325، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی
کیشنز )
اپنی
طرف سے اللہ تعالیٰ کے لیے
کوئی نام نہیں بول سکتے ، چاہے اس کے معنی درست ہی کیوں نہ
ہو ں، چنانچہ مفتی
شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1421ھ/2000ء) لکھتے ہیں:”قرآن کریم میں اللہ تعالی کی
صفت یہ بیان ہوئی﴿ وَیُعَلِّمُکُمۡ
مَّا لَمْ تَکُوۡنُوۡا تَعْلَمُوۡنَ﴾اس آیت کی
روشنی میں لغوی معنی کے اعتبارسے یقیناًاللہ
تعالیٰ معلم ہوا ، لیکن اللہ تعالیٰ کومعلم
کہناممنوع ہے، اس لیے کہ عرف عام میں معلم مکتب میں بچوں کو
پڑھانے والے کو کہتے ہیں ۔‘‘(فتاوی شارح بخاری ، جلد 1 ، صفحہ 207 ، مطبوعہ
برکات المدینہ ، کراچی )
حدیث
پاک میں اللہ پاک کے ننانوے صفاتی ناموں کا ذکر حصر کےلیے نہیں ، بلکہ ان کےعلاوہ بھی بہت سے اسمائے الٰہیہ ہیں ، جیساکہ یہی
مفہوم ایک حدیث پاک سے بھی ثابت ہوتاہے ، چنانچہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اللہ پاک سے
دعا کرتے ہوئے یوں عرض کیا :”أسألك بكل اسم هو لك سميت به نفسك“ ترجمہ : اے اللہ !
میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں ،
جس سے تو نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے ۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، کتاب
الدعاء ،جلد6، صفحہ40، مطبوعہ مکتبۃ الرشد)
امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:676ھ/1277ء) لکھتے
ہیں:”واتفق العلماء على
أن هذا الحديث ليس فيه حصر لأسمائه سبحانه وتعالى فليس معناه أنه ليس له أسماء غير
هذه التسعة والتسعين وإنما مقصود الحديث أن هذه التسعة والتسعين من أحصاها دخل الجنة
فالمراد الإخبار عن دخول الجنة بإحصائها لا الإخبار بحصر الأسماء ولهذا جاء في
الحديث الآخر أسألك بكل اسم سميت به نفسك“ ترجمہ :علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے
الہٰیہ ننانوے میں مُنْحَصِر نہیں ہیں ، حدیث
پاک کا یہ مطلب نہیں کہ ان ننانوے ناموں کے علاوہ اللہ
تعالیٰ کے اور نام نہیں ہیں ، بلکہ حدیث کا مقصود
صرف یہ ہے کہ ان ننانوے ناموں کو
یاد کرنے والا داخلِ جنّت ہوگا ، تو مراد
جنت میں داخل ہونے کی
خبر دینا ہے ، نہ کہ ناموں کو انہی میں منحصرکرنا ، اسی
وجہ سے دوسری حدیث پاک میں
یہ الفاظ آئے کہ (نبی پاک صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا
کرتے ہوئے عرض کیا اے اللہ ! )
میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں ، جس سے تو
نے اپنے آپ کو موسوم کیا ہے ۔ (شرح النووی علی المسلم، کتاب الذکر والدعاء ۔الخ، باب
فی اسماء اللہ ۔ ۔، جلد 17 ، صفحہ 5 ، مطبوعہ دار احیاء
التراث العربی ، بیروت )
حدیث
پاک میں بیان کیے گئے ناموں کے علاوہ چند
اسمائے الٰہیہ بیان کرتے ہوئے مفتی محمد احمد یار خان
نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1391ھ/1971ء)لکھتےہیں:’’ان ناموں میں رب تعالیٰ کے بہت سے مشہور
نام نہیں آئے ، جیسے قدیم،وتر،شدید،کافی ، رب
اکرم،اعلیٰ،اکرم الاکرمین،ذوالعرش المجید،فعال لما
یرید،مالك یوم الدین،رفیع الدرجات،ذوالقوۃ
المتین،ذوالعرش،ا حسن الخالقین وغیرہ وغیرہ۔اس سے
معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے کل نام یہ نہیں ہیں ، جیساکہ
پہلے عرض کیا گیا۔‘‘
(مراٰۃ المناجیح،
جلد3، صفحہ326، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز )
اللہ
تعالیٰ کے صفاتی نام اَلْمُسَخِّرُ کے متعلق
:
صفتِ
تسخیر کے بیان پر مشتمل آیاتِ مبارکہ : اللہ تبارک و
تعالیٰ قرآن کریم میں
ارشاد فرماتاہے :
(1) ﴿اَللّٰهُ
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ
السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ وَ
سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ
بِاَمْرِهٖ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ - وَ سَخَّرَ لَكُمُ
الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ دَآىٕبَیْنِ-وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّیْلَ
وَ النَّهَارَ﴾(القرآن الکریم ، پارہ 13 ، سورہ ابراھیم ،
آیت 32 ، 33)
(2) ﴿اَللّٰهُ
الَّذِیْ سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْكُ فِیْهِ
بِاَمْرِهٖ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ
تَشْكُرُوْنَ﴾
(القرآن الکریم ، پارہ 25 ، سورۃ
الجاثیۃ ، آیت 12)
(3) ﴿وَ
هُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا
طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا-وَ
تَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِیْهِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ
لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾(القرآن الکریم ، پارہ 14 ،
سورۃ النحل ، آیت 14)
(4) ﴿سُبْحٰنَ
الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ
مُقْرِنِیْنَ وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ﴾ (القرآن
الکریم ، پارہ 25 ، سورۃ الزخرف، آیت 13)
اِن
کےعلاوہ اور بہت سی آیاتِ مبارکہ
ہیں ، جن میں صفتِ تسخیر کا ذکر موجود ہے، یہاں
طوالت سے بچتے ہوئے انہی پر اکتفاء
کیا گیا ہے ۔
اللہ
تعالیٰ کے صفاتی نام ” اَلْمُسَخِّرُ “کے متعلق اقوالِ
علما و ائمہ:
امام ابو جعفر
محمد بن جریر طبری رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:310ھ/923ء)لکھتے
ہیں:﴿اِنَّ
فِیۡ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْضِ
وَاخْتِلٰفِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ
لِّاُولِی الۡاَلْبابِ﴾ وهذا
احتجاج من اللہ تعالى ذكره على قائل ذلك
وعلى سائر خلقه بأنه المدبر المصرف الأشياء ، والمسخر ما أحب، وإن الاغناء والافقار إليه وبيده“ ترجمہ :
یہ آیتِ مبارکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے قائل
اور تمام مخلوق پر حجت ہے کہ اشیاء
کی تدبیر فرمانے والا ،
ان کو پھیرنے والا اور جو چاہے مسخر
کر دینے والا صرف اللہ ہی ہے اور غنی کرنا یا فقر
طاری کرنابھی اُسی کے دستِ قدرت میں ہے۔(تفسير الطبری ، جلد 6 ، صفحہ 308مطبوعہ دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع)
امام ابو عبد اللہ محمد بن عمر فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ ( سال
ِ وفات : 606ھ ) اس
آیت مبارکہ : ﴿اَللّٰهُ
الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ
السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ…﴾کے تحت لکھتے
ہیں : ” أنه تعالى هو الخالق لهذه الأحوال، وهو المدبر لهذه
الأمور والمسخر لها“ ترجمہ :
اللہ تعالیٰ ان اَحوال کو پیدا کرنے والا ، ان
کاموں کو چلانے والا اور ان (سورج ،
چاند، کشتی ، سمندر وغیرہا )سب
کو مسخر کرنے والا ہے ۔(التفسير الكبير، سورہ ابراھیم ،تحت
الایۃ 32 ، جلد 19، صفحہ 98 ، مطبوعہ دار إحياء التراث
العربي ، بيروت)
علامہ اَثیر الدین محمد بن یوسف اُندلسی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات :
745ھ )اس آیتِ مبارکہ ﴿ أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ
السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا
اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾کے تحت لکھتے ہیں : ”و قال : لقوم يؤمنون ، فإنهم هم الذين ينتفعون
بالاعتبار ، ولتضمن الآية أن المسخر والممسك لها هو اللہ ، فهو إخبار منه تعالى ما يصدق به إلا المؤمن “ترجمہ : آیت مبارکہ میں فرمایا گیا
کہ اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں ،
کیونکہ اہلِ ایمان ہی
اس پر یقین رکھتے ہوئے نفع
اٹھاتے ہیں اور اس لیے بھی تاکہ آیت اس بات کو شامل ہو
جائے کہ ان پرندوں کو مسخر کرنے اور ہوا
میں روکنے والی اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہی ذات ہے ، تو یہ خبر دی جارہی ہے کہ اس بات کی
تصدیق اہلِ ایمان ہی کرتے ہیں ۔ (البحر المحيط في التفسير، جلد 6، صفحہ 576 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )
علامہ شہاب الدين ابن حجر ہیتمی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات : 974ھ) لکھتے ہیں:”هو المسخر للقلوب
بالمنع والاعطاء فلا رازق ولا معطي ولا ضار ولا نافع إلا هو عزّ وجلّ “ترجمہ : وہی یعنی اللہ
تعالیٰ ہی دلوں کو منع اور عطا کے ساتھ مسخر کرنے والا ہے اور
اس کے سوا کوئی رازق، معطی، نافع اور ضارّ نہیں۔(الزواجر عن اقتراف الكبائر ، جلد 1 ،صفحہ 80 ، مطبوعہ دار
الفکر )
امام ابو عبد اللہ محمد بن محمد ا لمعروف ابن الحاج
الفاسی المالکی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 737ھ) لکھتے ہیں: ”أنه سبحانه وتعالى هو القاضي للحوائج والدافع للمخاوف والمسخر لقلوب الخلق والاقبال بها على
من شاء كيف يشاء“ ترجمہ :اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی حاجات کو پورا
کرنے والا اور خدشات و خطرات کو ٹالنے والا اور مخلوق کے دلوں کو مسخر کرنے
والا اور جس طرف وہ چاہے اپنی منشاء
کے مطابق ان کو پھیرنے والا ہے ۔(المدخل لابن الحاج ، فصل للعالم ان لایتردد لاحد ۔۔۔، جلد 2 ، صفحہ 112
، مطبوعہ دار التراث)
الفتح
الربانی والفیض الرحمانی المنسوب الی الشیخ عبد
القادر الجیلانی میں اللہ
پاک کی صفات بیان کرتے ہوئے المسخر بطور صفاتی نام ذکر ہوا، چنانچہ اس کتاب میں ہے : ” الملك واحد، الضارّ واحد، النافع واحد، المحرّك والمسكن
واحد، المسلط واحد، المسخر واحد، المعطي والمانع واحد، الخالق والرازق هو اللہ
عزّ وجلّ، هو القديم الأزليّ الأبدي، هو موجود قبل الخلق، قبل آبائكم وأمهاتكم
وأغنيائكم، هو خالق السموات والأرض وما فيهن وما بينهما﴿ لَيْسَ
كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴾ ترجمہ: مفہوم واضح ہے ۔ (الفتح الرباني والفيض الرحمانی ، صفحہ 64،
مطبوعہ دار الريان للتراث )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟