اللہ عزوجل کو رام کہنا کیسا |
مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:nor:9419 |
تاریخ اجراء:07محرم الحرام 1440ھ/18ستمبر2018ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اللہ عزوجل کو ”رام“کہنا کیسا ہے؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
”رام“کے معنی جانتے ہوئے جو مسلمان اللہ عز و جل کو ”رام “کہے ، وہ کافر و مرتد ہے ، اس کے تمام نیک اعمال برباد ہوگئے ، اس پر فرض ہے کہ اس کفر سے توبہ کرے ، پھر سے کلمہ پڑھے ، اگر شادی شدہ تھا ، تو پھر سے نکاح کرے۔رام کے معنی ہیں رما ہوا یعنی کسی میں گھسا ہوا ۔ یہ معنی اللہ عزوجل کے لیے عیب ہیں اور اس بات کو مستلزم ہیں کہ وہ خدا نہ ہو ،اس لیے رام کا اطلاق اللہ عزوجل پر کفر ہے ، ہاں جو اس کے معنی نہ جانتا ہو ، صرف اتنا جانتا ہو کہ ہندؤوں میں خداکو ”رام“کہا جاتا ہے ، اسی وجہ سے اس نے اللہ عزوجل کو رام کہہ دیا ، تو اس شخص پر حکمِ کفر تو نہ ہوگا ، البتہ یہ قول کفر ضرور ہے ، جس سے توبہ اور تجدید ایمان کرنا لازم ہے ، اگر شادی شدہ ہے ، تو تجدید نکاح کرنابھی لازم ہے ۔ خدا کو رام کہنے کاتفصیلی حکم بیان کرتے ہوئے مفتی محمد شریف الحق امجدی صاحب رحمۃاللہ تعالی علیہ فتاوی شارح بخاری میں لکھتےہیں:”رام کے جو حقیقی معنی ہیں ، ان پر مطلع ہوتے ہوئے جو شخص اللہ عزوجل کو ” بھگوان یا رام “کہے ، وہ بلاشبہہ کافر ، مرتد ہے،اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہوگئے،اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی ۔اس پر فرض ہے کہ اس سے توبہ کرے ، پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو اور اپنی بیوی رکھنا چاہتا ہو ، تو پھر سے تجدیدِ نکاح کرے ۔سنسکرت میں بھگ عورت کی شرم گاہ کو کہتے ہیں اور وان معنی ”والا “۔رام کے معنی رما ہوا یعنی کسی میں گھسا ہواہے ۔ یہ دونوں معنی اللہ عزوجل کے لیےعیب ہیں اور اس کو مستلزم ہیں کہ وہ خدا نہ ہواس لیےدونوں الفاظ کا اطلاق اللہ عزوجل پر کفر ہے ۔رہ گئے وہ لوگ جو اس کے حقیقی معنی نہیں جانتے ، وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہندؤوں میں اللہ عزوجل کو بھگوان یا رام کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے اگر اللہ عزوجل کو ”بھگوان یا رام “کہا ، تو ان کا حکم اتنا سخت نہیں ، پھر بھی ان پر توبہ وتجدید ایمان و نکاح لازم ہے۔“(فتاویٰ شارح بخاری ، جلد 1 ، صفحہ 171 ، 172 ، مطبوعہ برکات المدینہ ) خدا کو ”رام“کہنے کےمتعلق صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃاللہ تعالی علیہ فتاوی امجدیہ میں لکھتے ہیں :”خدا کو ”رام“کہنا ہندؤوں کا مذہب ہے،وہ چونکہ اسے ہر شے میں رما ہوا یعنی حلول کیے ہوئے جانتے ہیں ، اس وجہ سے اسے رام کہتے ہیں اور یہ عقیدہ کفر ہے اور اسے ”رام“کہنا بھی کلمۂ کفر ہے۔“(فتاوی امجدیہ،ص418،ح04 ، ج02 ،مطبوعہ مکتبہ رضویہ) اسی طرح فتاوی مصطفویہ میں ہے :”مشرکین کا مذہب نا مہذب ہے کہ خدا ہر چیز میں رما ہوا ، سرایت و حلول کیے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ رمنے اور حلول کرنے سے پاک ہے ۔مشرک خدا کو اپنے اسی عقیدۂ خبیثہ کی بنا پر رام کہتے ہیں۔تو خدا کو ”رام“کہنا کفر ہوا۔“(فتاوی مصطفویہ ،صفحہ 600،مطبوعہ شبیر برادرز ،لاهور) |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟