مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3148
تاریخ اجراء:29ربیع الاول1446ھ/04اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ " گناہ کا خالق بھی اللہ ہی ہے" یعنی گناہوں کو خلق کرنے والا بھی اللہ ہے، تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
یہ بات درست ہے کہ گناہ کا خالق بھی اللہ تعالی ہی ہے ، ایسا ہرگز نہیں کہ گناہ کا خالق انسان یا کوئی اور ہو، ہاں کسب کا تعلق انسان سے ہے کہ وہ کسب میں خود مختار ہے ،نیکی کرتا ہے یا بدی، یہ اس کے اختیار میں ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ کو تخلیق ہی انسان نے کیاہے۔
البتہ! نیکی و بدی کی نسبت کرنے میں ادب کا تقاضا یہ ہے کہ نیکی کی توفیق ملے تو اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی جائے اور گناہ سرزد ہو تو اسے اپنی شامت نفس تصور کرے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو۔(پارہ 23،سورۃ الصّٰٓفّٰت،آیت 96)
شرح السنۃ للبغوی میں ہے:’’ الإیمان بالقدر فرض لازم، وھو أن یعتقد أنّ اللہ تعالی خالقُ أعمال العباد، خیرھا وشرّھا، كتبها عليهم في اللوح المحفوظ قبل أن يخلقهم، قال الله سبحانه وتعالى: {والله خلقكم وما تعملون} [الصافات: 96]، وقال الله عز وجل: {قل الله خالق كل شيء} [الرعد: 16]، وقال عز وجل: {إنا كل شيء خلقناه بقدر} [القمر: 49].فالإيمان والكفر، والطاعة والمعصية، كلها بقضاء الله وقدره، وإرادته ومشيئته، غير أنه يرضى الإيمان والطاعة، ووعد عليهما الثواب، ولا يرضى الكفر والمعصية، وأوعد عليهما العقاب“ترجمہ: تقدیر پر ایمان فرض و لازم ہے، اور وہ یہ ہے کہ بندہ یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی بندوں کے اعمال کا خالق ہے خواہ اعمالِ خیر ہوں یا شر ، اللہ تعالی نے انھیں تخلیق فرمانے سے پہلے ہی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ، اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: (ترجمۂ کنز الایمان)اور اللہ نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے اعمال کو ۔ (سورۃ الصافات : 96) اور فرماتا ہے:(ترجمۂ کنز الایمان) تم فرماؤ اللہ ہر چیز کا بنانے والا ہے ۔ (سورۃ الرعد: 16) اور فرماتا ہے: (ترجمۂ کنز الایمان) بیشک ہم نے ہر چیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔ (سورۃ القمر: 49) ، پس ایمان و کفر ، نیکی و برائی ، سب کچھ اللہ تعالی کی قضا و قدرت اور اس کے ارادے و مشیت سے ہے، لیکن اللہ تعالی ایمان و طاعت پر راضی ہوتا ہے اور اس پر اس نے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے ، اور کفر و معصیت میں اس کی رضا شامل نہیں اور اس پر اللہ تعالی نے سزاکی وعید بیان فرمائی ہے۔(شرح السنۃ، باب الإیمان بالقدر، ج1، ص 142، المكتب الإسلامي ، بيروت)
سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالی ہے:﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾ترجمہ کنز الایمان: اے سننے والے! تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی پہنچے وہ تیری اپنی طرف سے ہے۔(پارہ 5،سورۃ النساء،آیت 79)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:" ارشادفرمایا گیا کہ اے مخاطب! تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کا فضل و رحمت ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی وجہ سے ہے کہ تو نے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا کہ تو اس کا مستحق ہوا۔ یہاں بھلائی کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اور برائی کی نسبت بندے کی طرف کی گئی ہے جب کہ اوپر کی آیت میں سب کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ بندہ جب مُؤثّر ِ حقیقی کی طرف نظر کرے تو ہر چیز کو اُسی کی طرف سے جانے اور جب اسباب پر نظر کرے تو برائیوں کو اپنی شامت ِنفس کے سبب سے سمجھے۔"(صراط الجنان،ج 2،ص 286،مکتبۃ المدینہ)
بہار شریعت میں ہے:’’بُرا کام کرکے تقدیرکی طرف نسبت کرنا اور مشیتِ الٰہی کے حوالہ کرنا بہت بُری بات ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ جو اچھا کام کرے، اسے منجانب اﷲ کہے اور جو برائی سر زد ہو اُس کو شامتِ نفس تصوّر کرے۔‘‘(بہار شریعت، ج 1، حصہ 1،ص 19، مکتبۃالمدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
یزید اورابوطالب کے بارےمیں اہلسنت کے کیا عقائدہیں؟
اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام نوربھی ہے اس کے کیا معنی ہیں؟
دنیا میں جاگتی آنکھوں سے دیدارالہی ممکن ہے یانہیں؟
کیا اللہ عزوجل کو خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا شوہر کو مجازی خدا کہہ سکتے ہیں؟
کیا دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
پیرپہ ایسااعتقادہو کہ پیرکافرہوتومریدبھی کافرہوجائے کہنا کیسا؟
ذات باری تعالی کےلیے چوہدری کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟