ALLAH Farmata Hai Khena Chahiye Ya ALLAH Tala Farmate Hain Kehna Chahiye?

”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‘‘کہنا چاہیے یا’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘ یوں کہنا چاہیے ؟

مجیب:ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Aqs-1672

تاریخ اجراء:01محرم الحرام1441ھ/01ستمبر2019

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اللہ عزوجل کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنا کیسا ہے؟ جیسے اللہ عزوجل فرماتے ہیں یا پھر واحد کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے ؟ جیسے اللہ عزوجل فرماتا ہے ، رہنمائی فرمائیں ۔

سائل :احمد رضا (قائدآباد ، کراچی )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بہتر یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے واحد کے الفاظ استعمال کیے جائیں کہ ذات وحدہ لا شریک لہ کے لیے واحد ہی زیادہ مناسب ہے ۔جیسے اللہ عزوجل فرماتا ہے اور اگر کوئی تعظیماً جمع کے الفاظ استعمال کرتا ہے ، تو یہ بھی جائز ہے ۔

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت  امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہواکہ ’’تعظیماً جمع کالفظ خد اکی شان میں بولنا جائزہے یانہیں ، جیسے کہ ’’اللہ جل شانہ یوں فرماتے ہیں؟ “ تو جواباً ارشادفرمایا :’’حرج نہیں  اور بہتر صیغہ واحد ہے کہ واحد احد کے لیے وہی انسب ہے، قرآن عظیم میں ایک جگہ رب عزوجل سے خطاب جمع ہے : ﴿ رب ارجعونوہ بھی زبان کافر سے ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ 207،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

   فتاوی رضویہ میں ایک دوسرے مقام پر اسی مسئلے کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”اللہ عزوجل کو ضمائر مفردسے یاد کرنا مناسب ہے کہ وہ واحد ، احد ، فرد ، وتر ہے اور تعظیماً ضمائر جمع میں بھی حرج نہیں ، اس کی نظیرقرآن عظیم میں ضمائر متکلم ہیں توصدہا جگہ ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَبیشک ہم نے اتاراہے یہ قرآن اور بیشک ہم خوداس کے نگہبان ہیں اورضمائر خطاب میں صرف ایک جگہ ہے وہ بھی کلام کافر سے کہ عرض کرے گا:﴿قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صٰلِحًا (اے میرے رب مجھے واپس پھیردیجئے شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں ) اس میں علماء نے تاویل فرمادی کہ یہ ”ارجع“ کی جمع باعتبار تکرارہے یعنی ” ارجع ارجع ارجع “ ہاں ضمائر غیبت میں بے ذکر مرجع صیغ جمع فارسی اور اردو میں بکثرت بلانکیر رائج ہیں بہرحال یونہی کہنا مناسب ہے کہ ’’اللہ تعالی فرماتاہے‘‘مگر اس میں(یعنی اللہ عزوجل فرماتے ہیں جملہ میں ) کفر و شرک کا حکم کسی طرح  نہیں ہوسکتا ،نہ گناہ ہی کہا جائے گا بلکہ خلافِ اولیٰ ہے ۔“(فتاوی رضویہ،جلد14،صفحہ 648،649،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم