بچوں کو معصوم کہنا کیسا؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ربیع الاول1441ھ

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ بچوں کو معصوم کہنا درست ہے یا نہیں؟ا

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

        شریعت کی اصطلاح میں”معصوم“ صرف انبیائے کرام اور فرشتے ہیں ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ہوتا اور معصوم ہونے کا مطلب شریعت میں یہ ہے کہ ان کے لئے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہوچکا جس کے سبب ان سے گناہ ہونا شرعاً محال ہے۔ اس لحاظ سے انبیائے کرام اور فرشتوں کے سوا کسی کو بھی معصوم کہنا ہرگز جائز نہیں بلاشبہ گمراہی و بددینی ہے۔ یاد رہے کہ اکابر اولیائے کرام سے بھی اگرچہ گناہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انھیں محفوظ رکھتا ہے مگر ان سے گناہ ہونا شرعاً محال بھی نہیں ہوتا لہٰذا اس حوالہ سے بھی کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔

    اس ضروری تمہید کے بعد جہاں تک سوال کی بات ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی ”معصوم“ کہہ دیا جاتا ہے لیکن شرعی اصطلاحی معنیٰ جو اوپر بیان کئے گئے اس سے وہ مراد نہیں ہوتے بلکہ لغوی معنیٰ یعنی بھولا، سادہ دل، سیدھا سادھا، چھوٹا بچہ، نا سمجھ بچہ، کم سن، والے معنیٰ میں کہا جاتا ہے۔ اس لئے اس معنیٰ میں بچوں کو معصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے۔

     بہارِشریعت میں صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمتِ انبیا کے یہ معنیٰ ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہولیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔“

(بہار شریعت،ج1،ص39)

        امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:”یہاں سے خلیفہ و سلطان کے فرق ظاہر ہوگئے، نیز کُھل گیا کہ سلطان خلیفہ سے بہت نیچا درجہ ہے، ولہٰذا کبھی خلیفہ کے نام کے ساتھ لفظ سلطان نہیں کہا جاتا کہ اس کی کسرِ شان ہے آج تک کسی نے سلطان ابوبکر صدیق، سلطان عمر فاروق، سلطان عثمان غنی، سلطان علی المرتضٰی بلکہ سلطان عمر بن عبدالعزیز بلکہ سلطان ہارون رشید نہ سنا ہوگا، کسی خلیفہ اموی یا عباسی کے نام کے ساتھ اسے نہ پائیے گا، تو کھل گیا کہ جس کے نام کے ساتھ سلطان لگاتے ہیں اسے خلیفہ نہیں مانتے کہ خلیفہ اس سے بلندوبالا ہے، یہی وہ خلافت مصطلحہ شرعیہ ہے جس کی بحث ہےعرفِ حادث میں اگر کسی سلطان کو بھی خلیفہ کہیں یا مدح میں ذکر کرجائیں وہ نہ حکمِ شرع کا نافی ہے نہ اصطلاحِ شرع کا مُنافی۔ جس طرح اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیاء علیہم الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کے سواکوئی معصوم نہیں ، جو دوسرےکو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے، پھر عرفِ حادِث  میں بچوں کو بھی معصوم کہتے ہیں یہ خارج ازبحث ہے جیسے لڑکوں کے معلم تک کو خلیفہ کہتے ہیں۔“

(ملتقطاً از فتاویٰ رضویہ،ج14،ص187)

        فرہنگِ آصفیہ میں معصوم کے درج ذیل معانی لکھے ہیں:”معصوم:(1)گناہ سے بچا ہوا۔ بے قصور۔ پاکدامن۔ (2)بھولا۔ سادہ دل۔ سیدھا سادھا (3)چھوٹا بچہ،کم سن بچہ، ناسمجھ بچہ۔“

(فرہنگ آصفیہ،ج2،ص1090)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم