کعبہ شریف اور مساجد کو اللہ کا گھر کیوں کہا جاتا ہے

مجیب: مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ ذوالقعدةالحرام1440

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    سوال:کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابت کرنا کفر ہے تو کعبہ شریف اور مساجد کو اللہ کا گھر کیوں کہا جاتا ہے؟کیا یہ کفر نہیں ہے؟

سائل:محمد منصور عطاری(چکوال،پنجاب )

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کعبہ شریف اور اسی طرح مساجد کو بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر کہنے کی وجہ یہ نہیں کہ مَعَاذَ اللہ وہ جگہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مکان ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ وہاں پر رہتا ہے،یہی آپ کی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے سوال کرنے کی نوبت آئی اس لئے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق  اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات مکان و زمان وغیرہ جمیع حوادث (تمام اشیاء جو پہلے نہیں تھی پھر  پیدا ہوئی) سے پاک ہے وہ تو ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا لہٰذا  جو اس کے لئے مکان ثابت کرے تو یہ بالیقین کفر ہے۔ اب آپ کے خلجان کو دور کرنے کی طرف آتے ہیں کہ پھر مساجد اور کعبۃ اللہ کو اللہ تعالیٰ کا گھر کیوں کہتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اضافت، تشریفی  کہلاتی ہے یعنی کعبہ شریف اور مساجد کے مقام و مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئےخاص طور پر اللہ تعالیٰ کی  طرف نسبت  ہوتی ہے اور یہ بلا شبہ جائز ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت صالح علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کی دعا سے ظاہر ہونے والی اونٹنی کو ”ناقۃ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی“، حضرت جبریل علیہ السَّلام کو ”روحنا یعنی ہماری روح“ اور کعبہ شریف کو ”بیتی یعنی میرا گھر“ فرمایا ہے، اسی طرح احادیثِ طیبہ میں تمام مساجد کو ”بیوت اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر“ فرمایا۔ یہ سب اضافتیں تشریفی ہیں کہ اس میں  اللہ تعالیٰ کی طرف خصوصی  نسبت کرتے ہوئے ان چیزوں کی عظمت و شرافت کا اظہار  ہوتا ہے لہٰذا کعبہ شریف اور مساجد کو تعظیم و تکریم کے پیش نظر ”اللہ کا گھر“ کہنا جائز ہے،اس میں  کسی قسم کا کوئی حرج نہیں۔

    عقائد کی مشہور و معروف کتاب شرح عقائد نسفیہ میں ہے:(ولایتمکن فی مکان) واذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھۃ لاعلو ولاسفل ولاغیرھما۔ملخصاً“اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی مکان میں نہیں ہے اور جب وہ مکان میں نہیں تو کسی جہت میں بھی نہیں، نہ اوپر کی جہت میں، نہ نیچے کی جہت میں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی جہت میں۔“

(شرح عقائد نسفیہ،ص54،55)

    بہارِشریعت عقیدہ کے باب میں مذکور ہے:”اللہ تعالیٰ جہت و مکان و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔“

(بہار شریعت،ج1،ص19)

    اضافتِ تشریفی سے متعلق علامہ بدرالدین عینی حنفی علیہ الرَّحمہ ایک حدیثِ پاک میں مذکور الفاظ (فی ظلہ) کی وضاحت میں فرماتے ہیں:قلت:اضافۃ الظل الیہ اضافۃ تشریف لیحصل امتیاز ھذا عن غیرہ کما یقال للکعبۃ بیت اللہ مع ان المساجد کلھا ملکہ و اما الظل الحقیقی فاللہ تعالی منزہ عنہ لانہ من خواص الاجسام۔میں کہتا ہوں کہ سایہ کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اضافت ، شرف دینے کے لئے ہے تا کہ اسے دیگر سے امتیازی خصوصیت حاصل ہوجائے جیسا کہ کعبہ کو اللہ کا گھر کہا جاتا ہے، حالانکہ تمام مسجدیں اسی کی ملکیت ہیں۔ رہا،سایہ اپنے حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے پاک و منزہ ہے کیونکہ یہ  اجسام کی خصوصیات میں  سے ہے۔“

(عمدۃ القاری،ج 5،ص259،260)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم