اللہ عزوجل کو "حاضر و ناظر" کہنا کیسا ؟

مجیب:مولانا ساجدصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:mad:1969

تاریخ اجراء:20محرم الحرام1439ھ/11اکتوبر2017ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کو ”حاضر و ناظر“ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     بے شک ہر چیز اللہ عزوجل پر عیاں ہے اور وہ ہر چیز کو دیکھتا بھی ہے ، لیکن  اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ”حاضر و ناظر “کے الفاظ استعمال نہیں کر سکتے ، کیونکہ ایک تو یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ ان لفظو ں کے عربی لغت میں جو معانی بیان کیے گئے ہیں ، وہ  اللہ عزوجل کی شان کے لائق نہیں ہیں ۔ اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں کہ ان  الفاظ کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال منع ہے ، لہٰذا اللہ عزوجل کی ان صفات کو بیان کرنے کے لیے ”حاضر و ناظر“ کے بجائے ” شہید و بصیر“ کہاجائے ۔ جیسا کہ اللہ عزوجل نے خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :﴿ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌترجمہ کنز الایمان:بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔(سورۃ حج ، آیت نمبر 17)

     ایک اور جگہ ارشادِباری تعالیٰ ہے : ﴿ اِنَّ اللہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ سنتا ، دیکھتا ہے۔(سورۃ حج ، آیت نمبر 75)

     مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :”حاضر و ناظر کے جو معنی لغت میں ہیں ، ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے ۔”حاضر “کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجداور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں: نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ، جو چیز کھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو ، اسے حاضر کہتے ہیں اور ” ناظر “ کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی ، جبکہ نظر کے معنی ”کسی امر میں تفکر و تدبر کرنا ، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا“لکھے ہیں ۔ ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے ۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جا سکتا ۔ اسی لیے اسماء حُسنیٰ میں حاضر و ناظر بطور اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قرآن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین یا ائمہ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیے ہیں ۔ “ (وقار الفتاوی، جلد1، صفحہ66، مطبوعہ کراچی)

     فتاوی فیض الرسول میں ہے :”اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں ۔ یعنی ہر موجود اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے ، تو یہ عقیدہ حق ہے ، مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظِ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کالفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے ، لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولے ، تو وہ کفر نہ ہوگا۔ “(فتاوی فیض الرسول، جلد1، صفحہ3، مطبوعہ لاھور)

     اور مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں :”اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں ، مگر اللہ عزوجل کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے اسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق  باری تعالیٰ پر کیا ہے ، اسی کا اطلاق درست اور جن اسما کا اطلاق نہیں فرمایا ، ان سے احتراز چاہیے۔“(فتاوی شارح بخاری، جلد1، صفحہ305، مطبوعہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم