اللہ پاک کو حاضر و ناظر کہنا کیسا؟

مجیب:مولانا ساجد صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ فروری/مارچ 2019

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالیٰ کو ”حاضِر و ناظر“ کہنا جائز ہے یا نہیں ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بے شک ہر چیز اللہعَزَّوَجَلَّ پر عیاں ہے اور وہ ہر چیز  کو دیکھتا بھی ہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان صفات کو بیان کرنے کیلئے ”حاضِر و ناظِر“ کے الفاظ استعمال نہیں کرسکتے کیونکہ ایک تو یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے نہیں ہیں اور دوسرا یہ کہ ان لفظوں کے عربی لُغت میں جو معانی بیان کئے گئے وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان کے لائق نہیں ہیں اسی لئے علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کا اللہتعالیٰ کے لئے استعمال منع ہے۔ لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ان صفات کو بیان کرنےکیلئے ”حاضر و ناظر“ کے بجائے ”شہید و بصیر“ کہا جائے جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود ارشاد فرمایا ہے:اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ(۱۷)ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ہر چیز اللہ کے سامنے ہے۔(پ17، الحج:17) ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌۚ(۷۵)ترجمۂ کنز الایمان: بیشک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔ (پ17، الحج:75) مفتیِ اعظم پاکستان مفتی وقار الدّین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں:”حاضر و ناظر کے جو معنی لُغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان الفاظ کا بولنا جائز نہیں ہے۔”حاضِر“ کا معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتب المنجد اور مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں: نزدیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ، جو چیز کھلم کھلا بےحجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں۔ اور ”ناظر“  کے معنی مختار الصحاح میں آنکھ کے ڈھیلے کی سیاہی جبکہ نظر کے معنی کسی امر میں تفکّر و تدبّر کرنا، کسی چیز کا اندازہ کرنا اور آنکھ سے کسی چیز میں تامل کرنا لکھے ہیں۔ ان دونوں لفظوں کے لُغوی معنی کے اعتبار سے اللہتعالیٰ کو پاک سمجھنا واجب ہے۔ بغیر تاویل ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ پر نہیں بولا جاسکتا۔ اسی لئے اَسماءِ حُسنیٰ میں ”حاضِر و ناظِر“ بطورِ اسم یا صفت شامل نہیں ہیں۔ قراٰن و حدیث میں یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی صحابۂ کرام اور تابعین یا ائمۂ مجتہدین نے یہ الفاظ اللہتعالیٰ کے لئے استعمال کئے ہیں۔“(وقار الفتاویٰ، 66/1) فتاویٰ فیض الرّسول میں ہے:”اگر حاضر و ناظر بہ معنی شہید و بصیر اعتقاد رکھتے ہیں یعنی ہر موجود اللہتعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ ہر موجود کو دیکھتا ہے، تو یہ عقیدہ حق ہے مگر اس عقیدے کی تعبیر لفظ حاضر و ناظر سے کرنا یعنی اللہتعالیٰ کے بارے میں حاضر و ناظر کا  لفظ استعمال کرنا نہیں چاہیے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس لفظ کو اللہتعالیٰ کے بارے میں بولے تو وہ کُفْر نہ ہوگا۔“(فتاویٰ فیض الرّسول،3/1) اور مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنے والا کافر تو نہیں مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو حاضر و ناظر کہنا منع ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اَسما توقیفی ہیں یعنی شریعت نے جن اسما کا اطلاق باری تعالیٰ پر کیا ہے اسی کا اطلاق دُرست اور جن اَسما کا اطلاق نہیں فرمایا ان سے احتراز چاہیے۔“(فتاویٰ شارحِ بخاری،305/1)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم