عوام میں ایک مشہور جملے ’’مایوسی کفر ہے‘‘ کی وضاحت کہ کیا واقعی مایوسی کفر ہے؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2182

تاریخ اجراء: 26 جُمادَی الاُولیٰ 1443  ھ /31 دسمبر  2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ جب کوئی شخص کسی پریشانی میں مبتلا ہو اور بظاہر بہتری کی کوئی راہ دِکھائی نہ دے رہی ہو ، تووہ ہمت ہار جاتا ہے ، جس پر دوست احباب اسے تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں  کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو ، کیونکہ مایوسی کفر ہے ۔ اس حوالے سے یہ شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کیا واقعی مایوسی کفر ہے ؟اس کی وضاحت فرما دیں ۔سائل : ابراہیم بھٹی ( صدر ،  کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مومن کو اپنے رب عز و جل پر مکمل بھروسہ ہونا چاہیے ، کسی بھی لمحے اپنے رب کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے ، اللہ تعالیٰ کی رحمت پر ہمیشہ امید رکھنے کی قرآن و حدیث میں تاکید کی گئی ہے ، اس کی رحمت سے ناامید اور مایوس ہونے والے سے متعلق بہت سخت وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ۔ باقی کسی شخص کے مایوس ہونے سے متعلق حکمِ شرعی یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سےناامیدی اور مایوسی ناجائز وحرام اور گناہِ کبیرہ ہے  ، البتہ کفر نہیں ہے ، کیونکہ کسی گناہِ کبیرہ کا محض ارتکاب کرنے سے بندہ کافر نہیں ہوجاتا ، ہاں بعض صورتوں میں مایوسی کفر ہے ، مثلا : یہ عقیدہ ہو کہ اللہ عز و جل میرے حالات کو نہیں دیکھ رہا،  یا میرے حالات سے بے خبر ہے یا میری یہ پریشانی دور کرنے پر قادر نہیں ہے یا یہ عقیدہ ہو کہ معاذ اللہ عز و جل ! اللہ تعالیٰ بخیل ہے کہ میری پریشانی دور نہیں کر رہا ، چونکہ یہ سارے عقیدے کفر ہیں ، اس لیے اگر ان میں سے کسی عقیدے کے ساتھ کوئی شخص مایوس ہوگا ، تو بلاشبہہ ایسی مایوسی ضرور کفر ہے اور اگر اس طرح کا کوئی بھی کفریہ عقیدہ نہ پایا جائے ، تو پھر مایوسی کفر نہیں ، البتہ ناجائز و حرام اور گناہِ کبیرہ ضرور ہے ۔

اللہ عز و جل قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسْرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوۡا مِنۡ رَّحْمَۃِ اللہِ  اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ  ترجمۂ کنز الایمان : ’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(پارہ 24 ، سورۃ الزمر ، آیت 53)

   اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ﴿ وَمَنۡ یَّقْنَطُ مِنۡ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّاالضَّآلُّوۡنَ ترجمۂ کنز الایمان : ’’اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے  ۔ ‘‘  ( پارہ 14 ، سورۃ الحجر ، آیت 56)

   اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھنے سے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ ’’ ان الله عز و جل قال : أنا عند ظن عبدي بي إن ظن بي خيرا فله وإن ظن شرا فله ‘‘ ترجمہ : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔  اگر وہ خیر کا گمان کرے ، تو اس کے لیے خیر ہے اور اگر شر کا گمان رکھے ، تو اس کے لیے شر ہے۔( مسند احمد بن حنبل ، مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ، جلد 2 ، صفحہ 391 ، مطبوعہ قاھرہ )

   حدیثِ پاک میں اللہ کی رحمت سے ناامید ہونے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کبیرہ گناہوں سے متعلق پوچھا گیا ، تو ارشاد فرمایا : ’’ الشِّرْكُ بِاللہ، وَالْإِيَاسُ مِنْ رَوْحِ اللہ، وَالْأَمْنُ مِنْ مَكْرِ اللہ ‘‘ ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، اس کی رحمت سے ناامید ہونا اور اس کی خفیہ تدبیر سے بے خوف ہوجانا ہے ۔( الزواجر عن اقتراف الکبائر ، جلد 1 ، صفحہ 17 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   مایوسی کے گناہِ کبیرہ ہونے سے متعلق علامہ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ عدّ هٰذَا كَبِيرَةً وَهُوَ ظَاهِرٌ، لِمَا فِيهِ مِنْ الْوَعِيدِ الشَّدِيدِ بَلْ فِي الْحَدِيثِ التَّصْرِيحُ بِأَنَّهُ مِنْ الْكَبَائِرِ، بَلْ جَاءَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ ‘‘ ترجمہ : مایوسی کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے اور یہی ظاہر ہے ، کیونکہ اس بارے میں بہت سخت وعید وارد ہوئی ہے ، بلکہ حدیثِ پاک میں تو مایوسی کے گناہِ کبیرہ ہونے سے متعلق صراحت ہے ۔ بلکہ ( اس سے بھی بڑھ کر ) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مایوسی اکبر الکبائر یعنی کبیرہ گناہوں میں سے بھی بڑا گناہ ہے ۔ ( الزواجر عن اقتراف الکبائر ، جلد 1 ، صفحہ 149 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   اسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : ’’ شخص أيس من وقوع شيء من أنواع الرحمة له مع إسلامه، وهذا هو الذي كلامنا هنا فيه، فهذا اليأس كبيرة اتفاقا ، ثم هذا اليأس قد ينضم إليه حالة هي أشد منه، وهي التصميم على عدم وقوع الرحمة له.   ‘‘ ترجمہ : ایک شخص مسلمان ہونے کے باوجود رحمتِ خداوندی کی اقسام میں سے کسی بھی قسم اورشے کے واقع ہونے سے مایوس ہے ، یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں یہاں گفتگو ہو رہی ہے، یہی مایوسی بالاتفاق کبیرہ گناہ ہے۔ پھر اس مایوسی سے کبھی اس سے بھی سخت حالت مل جاتی ہے اور وہ یہ کہ رحمت نہ ہو نے کا یقین کر لینا ہے ۔ ( الزواجر عن اقتراف الکبائر ، جلد 1 ، صفحہ 150 ، 151  ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت )

   محض گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کفر نہیں ، چنانچہ امام اعظم امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ’’ ولا نكفر مسلما بذنب من الذنوب وإن كانت كبيرة إذا لم يستحلها ‘‘ ترجمہ : کسی مسلمان کو گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے ہم کافر نہیں قرار دیں گے ، اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو ، بشرطیکہ وہ اسے حلال نہ سمجھتا ہو ۔( الفقہ الاکبر مع الشرح ، صفحہ 71 ، مطبوعہ کراچی )

   سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں : ’’ ارتکابِ کبیرہ سے آدمی کافر نہیں ہوسکتا، ہاں کبیرہ کو کبیرہ نہ جانے ، تو بلاشک کافر ہے، منکر نصوصِ قطعیہ کا بلاشک کافر ہے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ ، جلد 5 ، صفحہ 98 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ مایوسی کے کفر ہونے سے متعلق فرماتے ہیں : ’’ بعض اَوقات مختَلِف آفات، دُنیاوی مُعامَلات یا بیماری کے مُعالَجات و اَخراجا ت وغیرہ کے سلسلے میں آدَمی ہمّت ہار کرما یوس ہو جاتا ہے ، اِس طرح کی مایوسی کُفر نہیں۔رحمت سے مایوسی کے کفر ہونے کی صورتیں یہ ہیں:اللہ عَزَّوَجَلَّ کو قادِر نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو عالِم نہ سمجھے یا اللہ تعالیٰ کو بخیل سمجھے۔‘‘( کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب ، صفحہ 483 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم