بچوں کو معصوم کہنا کیسا؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Fmd-1551

تاریخ اجراء:07محرم الحرام1441ھ/07ستمبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین  و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے  بارے میں کہ بچوں کومعصوم کہنادرست ہے یانہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شریعت کی اصطلاح میں’’معصوم‘‘صرف انبیائے کرام اور فرشتے ہیں،ان کےسوا کوئی معصوم نہیں ہوتا اور معصوم ہونے کا مطلب شریعت میں یہ ہے کہ ان کے لیے حفظ الہٰی کا وعدہ ہوچکا، جس  کے سبب ان سےگناہ  ہونا شرعاًمحال ہے۔ اس لحاظ سے  انبیائے  کرام اور فرشتوں کے سوا کسی کو بھی معصوم کہنا ہرگز جائز نہیں۔ بلاشبہ یہ گمراہی و بددینی ہے۔ یاد رہے کہ  اکابر اولیائے کرام سے بھی اگرچہ گناہ  نہیں ہوتا ، کہ اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھتا ہے، مگر  ان سے گناہ ہونا شرعا محال بھی نہیں ہے ، لہٰذا اس حوالے سے بھی کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے ۔ 

    اس ضروری تمہید کے بعد جہاں تک سوال کی بات ہے ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ عرف حادث  میں بچوں کوبھی’’معصوم‘‘ کہہ دیا جاتاہے، لیکن شرعی اصطلاحی معنی جو اوپر بیان کیے گئے اس سے وہ مرادنہیں ہوتے،بلکہ لغوی معنی یعنی بھولا،سادہ دل، سیدھاسادھا،چھوٹابچہ،ناسمجھ بچہ،کم سِن،والےمعنی میں کہاجاتاہے۔اس لیے اس معنی میں بچوں کومعصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں۔اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ۔

    بہارِشریعت  میں صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”نبی کا معصوم ہونا ضروری ہےاور یہ عصمت نبی اور مَلَک (فرشتے) کا خاصہ ہےکہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمتِ انبیاکے یہ معنی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے،بخلاف ائمہ و اکابر اولیاکہ اﷲ عزوجل اُنہیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔“

     (بھارِشریعت،جلد01،صفحہ38،39،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    اما م اہلسنت الشاہ امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن فرماتے ہیں:”یہاں سے خلیفہ وسلطان کے فرق ظاہرہوگئے، نیزکُھل گیا کہ سلطان خلیفہ سے بہت نیچا درجہ ہے، ولہذا کبھی خلیفہ کے نام کے ساتھ لفظ سلطان نہیں کہا جاتا کہ اس کی کسرِ شان ہے۔آج تک کسی نے سلطان ابوبکر صدیق، سلطان عمر فاروق، سلطان عثمان غنی، سلطان علی المرتضٰی ،بلکہ سلطان عمر بن عبدالعزیز ،بلکہ سلطان ہارون رشید نہ سنا ہوگا، کسی خلیفہ اموی یا عباسی کے نام کے ساتھ اسے نہ پائیے گا، تو کھل گیا کہ جس کے نام کے ساتھ سلطان لگاتے ہیں اسے خلیفہ نہیں مانتے کہ خلیفہ اس سے بلندوبالا ہے، یہی وہ خلافت مصطلحہ شرعیہ ہے جس کی بحث ہےعرف حادث میں اگر کسی سلطان کو بھی خلیفہ کہیں یا مدح میں ذکر کرجائیں، وہ نہ حکمِ شرع کا نافی ہے ،نہ اصطلاحِ شرع کا منافی۔جس طرح اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیا ء علیہم الصلاۃ والسلام کے سواکوئی معصوم نہیں ، جو دوسرےکو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے، پھر عرف حادث میں بچوں کو بھی معصوم کہتے ہیں یہ خارج ازبحث ہے، جیسے لڑکوں کے معلم تک کو خلیفہ کہتے ہیں۔ملتقطا “

( فتاوی رضویہ،جلد14،صفحہ187،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    فرہنگ آصفیہ میں معصوم کے درج ذیل معانی لکھے ہیں:

    ”معصوم۔(1)گناہ سے بچاہوا۔بے قصور۔پاکدامن ۔(2)بھولا۔سادہ دل۔سیدھاسادھا(3)چھوٹابچہ،کم سن بچہ،ناسمجھ بچہ“

(فرہنگ آصفیہ،جلددوم،صفحہ1090)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم